واشنگٹن، 16فروری (آئی این ایس انڈیا)ایران کے سابق بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی نے امریکی صدر جو بائیڈن کو جوہری معاہدے کی طرف واپسی سے خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سمجھوتے کی موت اس کو زندہ کرنے سے بہتر ہے۔ تاہم پہلوی نے توقع ظاہر کی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ "جوہری بلیک میلنگ" کے سامنے ہتھیار ڈال کر مشترکہ جامع عملی منصوبے(JCPOA) کے لیے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل ہو جائے گی۔
امریکا میں سکونت پذیر رضا پہلوی نے یہ بات نیوز ویک جریدے کو دیے گئے ایک طویل انٹرویو کے دوران کہی۔
معاہدے کے ناقدین کا جن میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہیں ،،، کہنا ہے کہ یہ سمجھوتا نا کافی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر عائد جوہری قیود 2025ء میں اختتام پذیر ہوں گی۔ اس سمجھوتے نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور علاقائی ملیشیاؤں کے بطور ایجنٹ استعمال پر روک لگانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
پہلوی کے مطابق مذکورہ معاہدے کے فیصلہ کن اجزاء ختم ہو چکے ہیں اور جلد ہی مزید اجزاء بھی ختم ہو جائیں گے۔ پہلوی کا کہنا ہے کہ اگر اس سمجھوتے کی قیمت 2015ء میں ہی مشکوک تھی تو پھر 2021ء میں تو اس کا برا ہونا واضح ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ ایران کی جانب سے جوہری بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے۔
پہلوی نے مزید کہا کہ امریکی انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وہ ایک نئے معاہدے میں شامل ہو کر اسے دیگر معاملات کی درستی کرے گی ،،، مگر ایسا کس نفوذ کے ساتھ ہو گا ؟
پہلوی کے مطابق تہران نا امید ہو چکا ہے۔ ایرانی نظام چھوٹے بڑے عوام احتجاجات کو کچلنے پر مجبور ہے۔ احتجاج کی وجوہات میں ادنی معیار زندگی، بنیادی اشیاء پر ٹیکس اور بدعنوانی اہم ترین ہے۔ سال 2019 میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ایرانی سیکورٹی فورسز نے احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن میں تقریبا 1500 افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ عوامی احتجاج ایندھن پر نئے ٹیکس نے بھڑکایا تھا۔
سابق شاہ ایران کے بیٹے نے باور کرایا کہ "اگر حکمراں ٹولے کو واقعتا ایرانی عوام سے کوئی دل چسپی ہوتی تو وہ شامی بچوں کو ہلاک کرنے والے بموں کی فنڈنگ سے رک جاتا اور اپنے عوام کے لیے روٹی خرید کر دیتا"۔
پہلوی نے کہا کہ ایران پر انتہائی دباؤ کی مہم حکمراں نظام کو کمزور کرنے میں کامیاب رہی تاہم یہ پوری نہ ہوئی کیوں کہ اسے ایرانی عوام کے ساتھ یک جہتی کی سپورٹ حاصل نہیں رہی۔
پہلوی کے مطابق ایرانیوں کی واقعتا مدد کا واحد طریقہ یہ ہے کہ موجودہ حکمراں نظام کا خاتمہ کیا جائے جو انہیں ظلم و جبر کی چکی میں پیس رہا ہے۔ ایرانی عوام 42 برس بعد اب جان چکے ہیں کہ ان کے منہ سے نوالہ چھینے اور ان کو بنیادی سماجی اور سیاسی آزادی سے محروم کرنے کا ذمے دار کون ہے۔
رضا پہلوی بیرون ملک رہ کر ایرانی معاشرے کو منظم کرنے اور ایران میں حقیقی جمہوریت کو جنم دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ پہلوی کا کہنا ہے کہ وہ ایرانیوں کی قیادت کے حوالے سے ذاتی طور پر اپنے لیے کسی کردار میں دل چسپی نہیں رکھتے ہیں بلکہ وہ ان کا دفاع کرنے والا بننا چاہتے ہیں۔